عکس جس کا میری آنکھوں سے کبھی ہٹتا نہیں
اب تو میری سمت وہ بھولے سے بھی تکتا نہیں
دل کے اس ویران گھر میں کوئی بھی بستا نہیں
گھیرا ہے آسیب نے جو کوئی بھی بستا نہیں
اس قدر سنجیدگی اور روکھا پن ہے کس لئیے
ہر طرف ہیں قہقہے اور تو کبھی ہنستا نہیں
کس لیے ہے میری جاں اتنی کبیدہ خاطری
تم یہ سمجھو جیسے میں اس شہر میں رہتا نہیں
تیری زلفوں نے مجھے نا جانے کیسے ڈس لیا
جب تلک نا چھیڑے کوئی سانپ بھی ڈستا نہیں
عکس اپنا دیکھ کر یہ سوچتا ہے عندلیب
ہے کمی مجھ میں ہی جو اس گل کو میں جچتا نہیں
ایسا بھی اک شخص ہمدم ہے ہمارا مظہریؔ
سب کی سنتا ہے مگر اپنی کبھی کہتا نہیں
یکے ازانتخاب از چشمِ بینائے مظہریؔ