Ghazal-Mohabbat kay Taqazay per kion Itna Timilata hay

ڈاکٹر ضیاءالمظہری کی لکھی ہوئی یہ غزل ۔محبت کے تقاضے پر کیوں اتنا تلملاتا ہے شفقت ممتاز نے گائی۔

محبت کے تقاضے پر کیوں اتنا تلملاتا ہے

کہ اتنی موہنی صورت پہ دل تو آ ہی جاتا ہے

جو تیرا نام لے کوئی بہت ہی من کو بھاتا ہے

کوئی مٹھی میں لے کے دل کو ہولے سے دباتا ہے

کسی کی بات سن لینا کسی سے بات کر لینا

جو سوچو ٹھنڈے دل سے تم بھلا کیا اس میں جاتا ہے

خنک بادِ بہاری آخرِ سرما میں چلتی ہے

تمہاری یاد کا پنچھی پروں کو پھڑپھڑاتا ہے

ہمارے پاس آ جاؤ یا ہم کو ہی بلا لو پاس

کہ آنا موسمِ گل کا امنگوں کو جگاتا ہے

گریباں چاک ہوتے ہیں پرانے زخم کھلتے ہیں

کہ اہلِ عشق کو موسم بہاروں کا ستاتا ہے

جو یکتا رنگ و خوشبو میں چمن میں گل نظر آئے

ترا مکھڑا تصور میں اے مہ رخ جھلملاتا ہے

گلِ خنداں کی خاموشی وہ نالے عندلیبوں کے

ترا حسنِ تغافل جانِ جاناں یاد آتا ہے

نئے پتوں کی چاہت میں شجر کتنی خوشی کے ساتھ

بہار آنے سے پہلے اپنے پتوں کو گراتا ہے

شبِ ظلمت نگل جائے گی اس کو بھی یہ لگتا ہے

جو میری آس کا تارہ ابھی تک ٹمٹماتا ہے

دعا کیجیے کہ تھم جائے دلِ گستاخ کی حرکت

تری الفت کے نغمے جو ابھی تک گنگناتا ہے

جو اک دن تو نے دیکھا تھا غصیلی ترچھی نظروں سے

یقیں جانو ابھی تک ہم کو اس پر پیار آتا ہے

مصیبت سی مصیبت ہے یہ کارِ عاشقی یارو

انہیں ہی ہم پہ ہے غصہ کہ جن پر پیار آتا ہے

کہ موسم میں بہاراں کے دلِ شاعر پہ کیا گذرے

جو لکھتا ہے ترا مظہرؔ تو “شفقت” گنگناتا ہے

 ڈاکٹر ضیاءالمظہری کی لکھی ہوئی غزل گلوکار شفقت ممتاز کی آواز میں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top