مجھ کو تیرا شباب لے بیٹھا
رنگ تیرا گلاب لے بیٹھا
کچھ تو اپنی جھجک نے مار دیا
اورکچھ ترا حجاب لے بیٹھا
یار کے ہجر نے ستایا تو
شاعری کی کتاب لے بیٹھا
کِتنی لکھ لی ہے کِتنی باقی ہے
مجھ کو یہ ہی حِساب لے بیٹھا
میں نہ آتا کسی کی باتوں میں
آپ عالی جناب لے بیٹھا
دوستو کیا سناؤں حال تمہیں
دل یہ خانہ خراب لے بیٹھا
تجھ کو دیکھا تو دیکھ کر مظہرؔ
دیکھ بیٹھا جو خواب لے بیٹھا