Jasd-e-Do-Lakht-Saqoot-e-Dhaka

جسدِ دو لخت

تم جو بولو تو وہی قصہ سناؤں پھر سے

خود بھی گریہ کروں تم کو بھی رلاؤں پھر سے

پھر  سے تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے

اپنے سر کو میں گریباں میں جھکاؤں پھر سے

نازُک سی طبع تیری گراں بار نہ ہو تو

داغ سینے کے ذرا کھل کے دکھاؤں پھر سے

کس کا کیا دوش تھا کیا جرم تھا کیا تھیں اغراض

اتنے پہروں میں زباں کیسے ہلاؤں پھر سے

شیر دل سےجوانوں کو دیا قیدِ عدُو میں

دار پر ایسی قیادت کو چرھاؤں پھر سے

تاریخ سے جو قومیں سبق لیتی نہیں ہیں

ان کا انجام  تباہی ہے بتاؤں پھر سے

کیسی تھی ہزیمت جو نہ دیکھی نہ سنی تھی

کیسے اِس سولہ دسمبر کو بھلاؤں پھر سے

پھر سے ملّت میں ہو یکتائی کا جوہرپیدا

دل میں امید کی شمع کو جلاؤں پھر سے

چرخِ ایّام کو ممکن ہو تو الٹا پھیروں

جسدِ دو لخت ضیاءؔ  ایک بناؤں پھر سے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top