Ishq e Mamnooah

عشقِ ممنوعہ

میں مظہرؔ ہوں مرے اپنے ستارے ہیں قمر بھی ہے

مگر یہ بھی تو دیکھو نا کہ دل بھی ہے نظر بھی ہے

ہے میرا اپنا محور تو تمھارا ہے مدار اپنا

کہ گردش پر مقدر کی نہیں کچھ اختیار اپنا

نہ تم نے حوصلہ بخشا نہ میں نے ہی جسارت کی

نہ کچھ بولے کنایوں میں نہ نظروں سے شرارت کی

نہ میں نے پیش قدمی کی، نہ تم نے کی پذیرائی

نہ نکلی آہ سینے سے  نہ پلکوں پر نمی آئی

مگر پھر بھی ہوا ناگاہ  مجھ سے سامنا تیرا

وہ نظروں کو گرا لینا وہ آنچل تھامنا تیرا

وہ دھڑکن میں تلاطم سا نظر میں تھر تھراہٹ سی

کہیں پوشیدہ خود سر سرسراتی کوئی چاہت سی

وہی احوال کی پرسش، وہی القاب رسمی سے

وہی رسمی تکلم سا، وہی آداب رسمی سے

نہ دل نے بات کی دل سے نہ آنکھوں نے کی آنکھوں سے

نہ کچھ سمجھا نہ سمجھایا  نہ نکلی بات باتوں سے

ہے دریا کی روانی میں نہ ندیا کے چلن میں ہے

یہ لہروں کی فراوانی جو تیرے پیرہن میں ہے

تری تصویر آویزاں اے جاں جو میرے من میں ہے

ادا کیسے زباں سے ہو نہاں جو میرے من میں ہے

ہے گل میں نہ گلستاں میں جو خوبی گلبدن میں ہے

کہاں سرو و سمن میں وہ جو تیرے بانکپن میں ہے

اثر انگیزی سیرت میں، بلا خیزی حسن میں  ہے

کہ خوش رنگ و معطّر گل کوئی جیسے چمن میں ہے

یہ گستاخی عجب سی ہے بھلا کیسی یہ جرأت ہے

بہت سی معذرت لیکن حقیقت تو حقیقت ہے

کہانی ہے یہ یک طرفہ سی بے مایہ سی چاہت کی

کہاں کس نے کسی سے کب، بھلا کیسی محبّت کی

مرے اپنے مسائل ہیں مری مجبوریاں اپنی

تمھاری قربتیں اپنی تمھاری دوریاں اپنی

یہ ممنوعہ شجر جنت میں نا ہوتا تو اچھا تھا

محبت میں نہ تیرا سامنا ہوتا تو اچھا تھا

بہتر ہے ابھی صدمہ دلِ ناکام کو پہنچے

بنا آغاز افسانہ کسی انجام کو پہنچے

رہے یہ عشقِ یک طرفہ  جو بے نیل و مرام اچھا

کہ اس قصے کا یونہی اور یہیں پر اختتام اچھا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top